بین الاقوامیپاکستانمعلومات

پاکستانی سائنسداں کی زحل کے چاند پرزندگی سے متعلق اہم دریافت

پاکستانی ماہر نے نظامِ شمسی کے خوبصورت سیارے زحل (سیٹرن) کے ایک چاند ’’اینسیلاڈس‘‘ پر ایک اہم نامیاتی سالمہ دریافت کیا ہے۔

یہ اہم دریافت ڈاکٹر نوزیر خواجہ کی نگرانی میں کی گئی ہے جس کا بیشتر تحقیق کام فری یونیورسٹی برلن میں ہوا ہے۔ انہوں نے زحل کی جانب بھیجنے جانے والے کیسینی خلائی جہاز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اینسیلاڈس، زحل کے بہت سے چاندوں میں درمیانے درجے کا ایک چاند ہے جس کا قطر 500 کلومیٹر ہے۔

ڈاکٹر خواجہ کی زیرِنگرانی امریکی اور جرمن سائنسدانوں نے اینسیلاڈس کی سطح کے نیچے سمندر میں ہائیڈروتھرمل قلب (کور) سے ابلنے والا ایک چھوٹا سالمہ دریافت کیا ہے جو نامیاتی ہے اور حیات کےلیے اہمیت رکھتا ہے۔

ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹرنوزیر خواجہ نے کہا: ’میں نے ایک چھوٹا لیکن حل پذیر (سولیوبل) اور تعامل کرنے والا (ری ایکٹیو) مرکب دریافت کیا ہے جو اینسیلاڈس کی گہرائیوں سے پھوٹ رہا ہے۔ یہ مرکب پہلے ہی زمینی سمندروں سے خارج ہونے والے ایسے سالمات سے ملتا جلتا ہے جو سمندری گہرائیوں میں گرم چمنیوں یا تھرمل وینٹس سے خارج ہوتے رہتے ہیں۔

یہ تحقیق منتھلی نوٹسز آف رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی (ایم این آر اے ایس) کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ امائنو ایسڈ کرہ ارض پر ہر جاندار کےلیے انتہائی ضروری اور بنیادی اجزا تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک جانب تو یہ جسم کےلیے ضروری پروٹینز کی تشکیل کرتے ہیں تو دوسری جانب استحالے (میٹابولزم) کو منظم بناتے ہیں، ہارمونوں کی تالیف کرتے ہیں اور دماغ سے پورے بدن تک جانے والے نیوروٹرانسمیٹر کو منظم رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر نوزیر کا کام بہت اہم ہے کیونکہ ان کا دریافت کردہ مرکب آکسیجن اور نائٹروجن سے بنا ہے جسے کیسینی خلائی جہاز کے حساس ترین آلات نے دریافت کیا تھا۔ اس مرکب کو امائنو ایسڈ کا پیش رو کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہمارے نیلے سیارے سے باہر عمیق خلا میں یہ پہلی دریافت ہے۔ اسی بنا پر اینسیلاڈس کو نظامِ شمسی میں حیات کی سادہ ترین شکل کا منبع کہاجاسکتا ہے جس سے یہ چاند ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

برف کے ذرے میں لپٹا یہ نامیاتی مرکب اینسیلاڈس کے سمندر کی گہرائی سے نمودار ہوا ہے۔ جس طرح ہمارے قطبین کے سمندر برف سے ڈھکے ہیں عین اسی طرح پورا چاند اینسیلاڈس، برف کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا ہے۔ تاہم اس پر کہیں کہیں دراڑیں موجود ہیں اور سمندر کے اندر ہائیڈروتھرمل سرگرمی سے یہ سالمات باہر نکل کر بہت بلندی تک دور خلا میں پہنچتے رہتے ہیں۔

کرہ ارض کے  سمندری فرش پر بے حساب چمنی نما ساختیں موجود ہیں جن سے گرم پانی کے ساتھ ایسے نامیاتی سالمات باہر پھوٹتے رہتے ہیں جو زندگی کےلیے اہم ہیں۔ خیال ہے کہ عین اسی طرح اینسیلاڈس کے سمندر کی گہرائیوں میں بھی گرم چشمے اور چمنیاں ہوسکتی ہیں جہاں سے اہم نامیاتی سالمات باہر آرہے ہیں۔

ایک سال قبل ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اینسیلاڈس پر ایک اور نامیاتی لیکن بڑا سالمہ دریافت کیا تھا تاہم اس کے مقابلے میں آج کی دریافت غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ مرکب، پانی حل پذیر ہے اور دیگر سالمات کے ساتھ کیمیائی تعامل (کیمیکل ری ایکشن) کرسکتا ہے۔ پھر اسے امائنو ایسڈ کا پیش رو بھی کہا گیا ہے۔

انکشافات ابھی باقی ہیں

کیسینی خلائی جہاز ایک عشرے سے زائد عرصے تک زحل اور اس کے چاندوں پر تحقیق کرتا رہا اور سال 2017 میں اسے جان بوجھ کر زحل کی فضا میں دھکیل کر اس کا تصادم کرایا گیا۔ لیکن اس سے ملنے والا ڈیٹا اب بھی نت نئی دریافتوں سے بھرپور ہے جو سائنسی ماہرین کو اگلے کئی برس تک مصروف رکھے گا۔

’اینسیلاڈس روز بروز زمین سے ماورا حیات کا بھرپور امیدوار بن کر سامنے آرہا ہے۔ اسی لیے مزید حیاتی معلومات کےلیے اس کا ڈٰیٹا کھنگالنا ضروری ہے۔ دوسری جانب ایسے خلائی مشن کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے جو کسی طرح اینسیلاڈس تک پہنچ کر اس انوکھی دنیا کو مزید تسخیر کرسکیں۔ ہمارا خیال ہے کہ وہاں کئی حیرت انگیز انکشافات ہمارے منتظر ہیں،‘ ڈاکٹر نوزیر نے بتایا۔

وزیرآباد میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے پنجاب یونیورسٹی سے خلائی سائنس و فلکیات میں ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے ارضی علوم میں ڈاکٹریٹ کے بعد اسی جامعہ کے ارضیاتی تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوئے۔

اب ان کا شمار زمین سے ماوراء حیات کی تلاش کے اہم ماہرین میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نوزیر کا تحقیقی کام ’’سائنس‘‘ اور ’’نیچر‘‘ سمیت کئی اہم جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ ناسا کے ساتھ فلکی حیاتیات کے کئی منصوبوں پر بھی کام کررہے ہیں۔

Back to top button